کیا حضرت عیسیٰ قیامت کے قریب بطور نشان آسمان سے نازل ہوں گے؟ (سورة الزّخرف آیت 62)
اعتراض کیا جاتا ہے کہ سورۃ زخرف میں یہ آیت موجود ہے وَاِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا یعنی وہ قیامت کے وجود پر نشان ہے سو تم باوجودموجود ہونے نشان کے قیامت کے بارے میں شک مت کرو۔نشان سے مراد حضرت عیسیٰ ہیں جو قیامت کے قریب نازل ہوں گے اور اس آیت سے اُن کانازل ہونا ثابت ہوتاہے۔
اس سوال کا ذکر کرنے کے بعد جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اماالجواب۔ ۔ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ اس آیت کو پیش کر کے قیامت کے منکرین کو ملزم کرنا چاہتا ہے کہ تم اس نشان کو دیکھ کرپھر مُردوں کے جی اُٹھنے سے کیوں شک میں پڑے ہو۔ سو اس آیت پر غور کرکے ہریک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اس کو حضرت عیسیٰ کے نزول سے کچھ بھی تعلق نہیں آیت تو یہ بتلا رہی ہے کہ وہ نشان مُردوں کے جی اٹھنے کا اب بھی موجود ہے اور منکرین کو ملزم کررہی ہے کہ اب بھی تم کیوں شک کرتے ہو۔ اب ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کا اس آیت میں یہ مطلب ہے کہ جب حضرت مسیح آسمان سے نازل ہوں گے تب اُن کاآسمان سے نازل ہونا مُردوں کے جی اُٹھنے کے لئے بطور دلیل یا علامت کے ہو گا تو پھر اس دلیل کے ظہور سے پہلے خدائے تعالیٰ لوگوں کو کیوںکر ملزم کرسکتا ہےکیااس طرح اتمام حجت ہو سکتا ہے؟ کہ دلیل تو ابھی ظاہر نہیں ہوئی اورکوئی نام و نشان اس کا پیدا نہیں ہوا اور پہلے سے ہی منکرین کو کہا جاتا ہے کہ اَب بھی تم کیوں یقین نہیں کرتے کیا اُن کی طرف سے یہ عذر صحیح طورپر نہیں ہو سکتا کہ یا الٰہی ابھی دلیل یانشان قیامت کا کہاں ظہورمیں آیا جس کی وجہ سے فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا کی دھمکی ہمیں دی جاتی ہے۔ کیا یہ اتمام حجت کاطریق ہے ؟ کہ دلیل تو ابھی پردہئ غیب میں ہو اور یہ سمجھاجائے کہ الزام پورا ہو گیا ہے۔ ایسے معنے قرآن شریف کی طرف منسو ب کرنا گویا اس کی بلاغت اورپُرحکمت بیان پر دھبّہ لگانا ہے۔سچ ہے کہ بعض نے یہی معنے لئے ہیں مگر انہوں نے سخت غلطی کھائی بلکہ حق بات یہ ہے کہ اِنّہ’ کا ضمیر قرآن شریف کی طرف پھرتا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف مُردوں کے جی اُٹھنے کے لئے نشان ہے کیونکہ اس سے مُردہ دل زندہ ہورہے ہیں۔ قبروں میں گلے سڑے ہوئے باہر نکلتے آتے ہیں اور خشک ہڈیوں میں جان پڑتی جاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں خود اپنے تئیں قیامت کا نمونہ ظاہر کرتاہے جیسا کہ اللہ جلّشانُہ، فرماتا ہے وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَآءًا طَھُوْرًا لِّنُحْیِیَ بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا (سورۃ فرقان الجزونمبر ١٩) یعنی ہم نے آسمان سے پاک پانی اُتاریعنی قرآن تا ہم اس کے ساتھ مردہ زمین کو زندہ کریں پھرفرماتا ہے وَاَحْیَیْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْتًا کَذَالِکَ الْخُرْوْجُ ۔ سورۃ ق الجزو نمبر ٢٦۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 321تا322)
ایک دوسرے موقع پر اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:
’’پھر کہتے ہیں کہ عیسیٰ کی نسبت ہے اِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَتِہ جن لوگوں کی یہ قرآن دانی ہے ان سے ڈرنا چاہئے کہ نیم مُلّا خطرہ ایمان۔ اے بھلے مانسو۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عِلْمٌ لِّلسَّاعَتِہ نہیں ہیں جو فرماتے ہیں کہ بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَتُہ کَھَاتَیْنِ اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِقْتَرَبَتِ السَّاعَتُہ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ یہ کیسی بدبودار نادانی ہے جو اِس جگہ لفظ سَاعَۃ سے قیامت سمجھتے ہیں۔ اب مجھ سے سمجھو کہ ساعۃ سے مُراد اِس جگہ وہ عذاب ہے جو حضرت عیسٰی ؑ کے بعد طیطوس رُومی کے ہاتھ سے یہودیوں پر نازل ہوا تھااور خود خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں سورۂ بنی اسرائیل میں اس ساعت کی خبر دی ہے۔ اسی آیت کی تشریح اِس آیت میں ہے کہ مَثَلًا لِّبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ یعنی عیسی ٰ کے وقت سخت عذاب سے قیامت کا نمونہ یہودیوں کو دیا گیا اور اُن کے لئے وہ ساعت ہوگئی۔ قرآنی محاورہ کی رُو سے ساعۃ عذاب ہی کو کہتے ہیں۔ سو خبر دی گئی تھی کہ یہ ساعۃ حضرت عیسیٰ کے انکار سے یہودیوں پر نازل ہوگی۔ پس وہ نشان ظہور میں آگیا اور وہ ساعۃ یہودیوں پر نازل ہوگئی۔ اور نیز اُس زمانہ میں طاعون بھی ان پر سخت پڑی اور درحقیقت اُن کے لئے وہ واقعہ قیامت تھا۔ جس کے وقت لاکھوں یہودی نیست و نابود ہوگئے اور ہزارہا طاعون سے مَرگئے۔ اور باقی ماندہ بہت ذلّت کے ساتھ متفرق ہوگئے۔ قیامت کُبریٰ تو تمام لوگوں کے لئے قیامت ہوگی مگر یہ خاص یہودیوں کے لئے قیامت تھی، اِس پر ایک اور قرینہ قرآن شریف میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَتِہ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا یعنی اے یہودیو!عیسیٰ کے ساتھ تمہیں پتہ لگ جائے گاکہ قیامت کیا چیز ہے۔ اُس کے مثل تمہیں دی جائے گی۔ یعنی مَثَلًا لِّبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ وہ قیامت تمہارے پر آئے گی اِس میں شک نہ کرو۔صاف ظاہر ہے کہ قیامت حقیقی جو اب تک نہیں آئی اُس کی نسبت غیر موزوں تھا کہ خدا کہتا کہ اس قیامت میں شک نہ کرو اور تم اُس کو دیکھو گے۔ اُس زمانہ کے یہودی تو سب مَر گئے اور آنے والی قیامت اُنہوں نے نہیں دیکھی۔ کیا خدا نے جھوٹ بولا۔ ہاں طیطوس رُومی والی قیامت دیکھی۔ سو قیامت سے مُراد وہی قیامت ہے جو حضرت مسیح کے زمانہ میں طیطوس رومی کے ہاتھ سے یہودیوں کو دیکھنی پڑی اور پھر طاعون کے ذریعہ سے اُس کو دیکھ لیا۔ یہ خدا کی کتابوں میں پُرانا وعدہ عذاب کا چلا آتا تھا جس کا بائبل میں جا بجاذِ کر پایا جاتا ہے۔ قرآن شریف میں اس کے لئے خاص آیت نازل ہوئی۔ یہی وعدہ قرآن شریف میں اور پہلی کتابوں میں موجود ہے اور اسی سے یہودیوں کو تنبیہ ہوئی۔ ورنہ دُور کی قیامت سے کون ڈرتا ہے۔ کیا اِس وقت کے مولوی اُس قیامت سے ڈرتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اور جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے۔ یہ لفظ ساعۃ کا کچھ قیامت سے خاص نہیں اور نہ قرآن نے اِس کو قیامت سے خاص رکھا ہے۔ افسوس کہ نیم مُلّا جن کی عاقبت خراب ہے اپنی جہالت سے ایسے ایسے معنے کر لیتے ہیں جن سے اصل مطلب فوت ہو جاتا ہے۔ آخری قیامت سے یہودیوں کو کیا خوف تھا۔ مگر قریب کے عذاب کی پیشگوئی بیشک اُن کے دِلوں پر اثر ڈالتی تھی۔ افسوس کہ سادہ لوح حجرہ نشین مولویوں کی نظر محدودہے ان کو معلوم نہیں کہ پہلی کتابوں میں اسی ساعت کا وعدہ تھا جو طیطوس کے وقت یہودیوں پر وارد ہوئی اور قرآن شریف صاف کہتا ہے کہ عیسیٰ کی زبان پر اُن پر لعنت پڑی اور عذاب عظیم کے واقعہ کو ساعۃکے لفظ سے بیان کرنا نہ صرف قرآن شریف کا محاورہ ہے بلکہ یہی محاوہ پہلی آسمانی کتابوں میں پایا جاتا ہے اور بکثرت پایا جاتا ہے۔ پس نہ معلوم ان سادہ لوح مولویوں نے کہاں سے اور کس سے سُن لیا کہ ساعۃ کا لفظ ہمیشہ قیامت پر ہی بولا جاتا ہے۔‘‘ (اعجاز ِ احمدی ضمیمہ نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 19۔صفحہ129تا131)
یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح
یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …