آیت خاتم النّبیّین کی تشریح
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
(سورۃ احزاب :41)
آیت کا ترجمہ اور تشریح
محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن اﷲ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النّبییّن ہیں۔ کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہونا اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے۔ اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن کریم سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اس عقیدہ کا اِستثناء بیان کیا گیا ہے یا اِس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مَرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا۔ مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی تسلیم نہیں کرتا کہ ان کے ہاں اَولاد تھی کیونکہ ان کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔ پس اِس آیت کے معنے کیا ہوئے کہ محمدؐ تم میں سے کسی بالغ مَرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں۔ لازماً اِس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا متبنّٰی ہے اس اظہار کے بعد کہ وہ متبنّٰی نہیں اِس امر کا کیا تعلق تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا جاتا اور پھر اِس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ ؐ کی ختمِ نبوت کا ذکر کیا جاتا۔ کیا اگر زید رضی اﷲ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختم نبوت کا مسئلہ مخفی رہ جاتا۔ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یونہی ضمناً بیان ہؤا کرتے ہیں؟ اِس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُوپر لکھ چکے ہیں کسی مَرد کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اَور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر بالغ مَردوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو لفظ مُشتبہ ہو جاتا ہے کیونکہ لٰکِنْ کا لفظ عربی زبان میں اور اس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہر زبان میں کسی شُبہ کے دُور کرنے کے لئے آتے ہیں۔
سورۃ الکو ثر اور آیت خاتم النبیین کا تعلق
اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہؤا نظر آتا ہے کہ:-
اِنَّآ اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ
(سورۃ الکوثر)
ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے پس تو اﷲ تعالیٰ کی عبادتیں اور قربانیاں کر۔ یقینا تیرا دُشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تُو نہیں۔
یہ آیت مکّی زندگی میں نازل ہوئی تھی اس میں ان مُشرکینِ مکّہ کا ردّ کیا گیا تھا جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرزندکی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو نرینہ اولاد نہیں۔ آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ (البحر المحیط)
اِس سُورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہؤا یہ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندہ رہنے والی اولادِ نرینہ تو ان کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دشمنوں کے متعلق ھُوَ الْاَبْتَرُ کہا گیا تھا ان کی اولادِ نرینہ زندہ رہی۔ چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاص کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر ان کی اولاد مسلمان ہو گئی اور ان میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ ؓ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید ؓ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہوئے کہ زید ؓ کی مطلّقہ سے جو آپ ؐکا متبنّٰی تھا آپ ؐ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اﷲ عنہ) محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو کسی بالغ جوان مَرد کے باپ ہیں ہی نہیں اور ”مَاکَانَ‘‘ کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اِس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی باپ نہیں ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے ”کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا‘‘(سورۃ نساء) یعنی اﷲ تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ اِس اعلان پر قدرتاً لوگوں کے دلوں پر ایک اَور شُبہ پیدا ہونا تھا کہ مکّہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دشمن تو اولادِ نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اﷲ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال کے بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مَرد کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اس کے یہ معنے ہوئے کہ سُورۃ کوثر والی پیشگوئی (نعوذ باﷲ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت مشکوک ہے۔
اِس کے جواب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شُبہ پیدا ہؤا ہے کہ یہ اعلان تو (نعوذ باﷲ) محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے۔ باوجود اِس اِعلان کے محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) اﷲ کے رسُول ہیں بلکہ خاتم النّبییّن ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں۔ پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی مُہر اس پر نہ لگی ہو۔ ایسا شخص آپ ؐ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف سے ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمد رسُول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اُمّت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابرِ مکّہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ سُورۃ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا۔ ابو جہل، عاص اور ولید کی اولاد ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ ؐ کی رُوحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی یعنی نبوت کا مقام۔ جو صرف مَردوں کے لئے مخصوص ہے۔
خلا صہ جواب
پس سورۃ کوثر کو سورہ احزاب کے سامنے رکھ کر ان معنوں کے سوا اور کوئی معنے ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر خاتم النّبییّن کے یہ معنے کئے جائیں کہ محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفّار کا وہ اعتراض جس کا سورۃ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے۔
امکا ن نبوت ۔ قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں
قرآن کریم کے مختلف مقامات پربڑی وضاحت سے امت محمدیہ میں نبوت کے امکان کا ذکر ہوا ہے۔ ان م…