کیا جماعتِ احمدیہ آیت ”خاتم النّبییّن” کی مُنکر ہے؟
’’یہ الزام کلیتًا غلط ہے اور اِفتراء پردازی کے مترادف ہے کہ نعوذ باﷲ جماعتِ احمدیہ آیت ”خاتم النّبییّن” کی مُنکر ہے اور آنحضور حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کو ”خاتم النّبییّن” تسلیم نہیں کرتی۔
تعجب ہے کہ یہ الزام مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے ایک ایسی جماعت پر لگایا جاتا ہے جو یہ پُختہ ایمان رکھتی ہے کہ قرآن کریم کی ایک آیت تو کُجا ایک شعشہ یا ایک نقطہ بھی منسوخ نہیں حالانکہ اس کے برعکس دیگر فرقوں کے علماء کے نزدیک قرآن کی بعض آیات بعض دوسری آیات کے ذریعہ منسوخ ہو چکی ہیں اور اَب ان کی مثال گویا انسانی جسم میں اپینڈکس کی سی ہے۔ پھر کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ قرآن کریم میں پانچ سے لے کر پانچ صَد آیات تک منسوخ ماننے والے فرقے ایک ایسے فرقے پر قرآن کریم کی کسی آیت کے انکار کا الزام لگا رہے ہیں جو پانچ تو درکنار ایک آیت کے ایک نقطہ تک کی تنسیخ کا قائل نہیں ۔
زبر دستی اور دَھونس کے سوا اِسے اَور کیا قرار دیا جاسکتا ہے؟ جب جماعتِ احمدیہ کی طرف سے یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ ہمارا یہی عقیدہ ہے اور اسی کی بار بار ہمیں بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی طرف سے تلقین کی گئی ہے کہ قرآن خدا کی آخری اور کامل کتاب اور محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے آخری اور کامل رسُول اور خاتم النّبییّن ہیں تو مخالف علماء کی طرف سے ہمیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ تم یہ کہنے کے باوجود کسی نہ کسی معنٰی میں نبی کے آنے کے امکان کو باقی سمجھتے ہو لہٰذا اِس آیتِ کریمہ کے مفہوم کا انکار کرتے ہو۔ پس عملاً آیت ہی کے مُنکر شمار ہو گے۔
مخالفینِ جماعت کا یہی وہ سب سے بڑا دھکّہ ہے جس کے زور سے وہ جماعتِ احمدیہ کو اسلام کے دائرہ سے باہر دھکیل دینے کا عزم لے کر اُٹھے ہیں۔ آئیے ذرا ٹھنڈے دِل سے اِس الزام کی حقیقت کا جائزہ لیں اور بڑے تحمل اور انصاف کے ساتھ یہ فیصلہ کریں کہ یہ الزام لگانے والے کس حد تک حق بجانب ہیں اور کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ خود ہی اپنے عائد کردہ الزام کی زَد میں آرہے ہوں اور بجاطور پر اس آیت کے مُنکر قرار دیئے جانے کے سزاوار ٹھہریں۔‘‘
(محضرنامہ ۔ صفحہ27تا28)
ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد
ختم نبوت کے بارہ میں احادیث نبویہ ﷺسے پیش کردہ غیراز جماعت کے دلائل اور ان کا رد لَا نَبِی…