وفاتِ مسیح ناصری سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک جامع تحریر
’’چند مولویوں کو حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک تحریر لکھ کر دی کہ آپ کیوں مسیح کی وفات کے قائل ہیں؟ حضور ؑ کی وہ تحریر درج ذیل کی جاتی ہے:
بسم ا ﷲالرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
وجوہ مفصلہ ذیل ہیں جن کی رو سے میں حضرت عیسیٰ ؑکو فوت شدہ قرار دیتا ہوں۔
(1) قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ ؑکی نسبت یہ آیات ہیں۔
يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ (آل عمران: 56)
(ترجمہ از ناقل:اے عیسیٰ!یقیناً مَیں تجھے وفات دینے والا ہوں اور اپنی طرف تیرا رفع کرنے والا ہوں۔)
فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ (المآئدۃ : 118)
(ترجمہ از ناقل:پس جب تو نے مجھے وفات دی۔)
ان آیات کے معنی صحیح بخاری کتاب التفسیر میں موت لکھے ہیں۔جیسا کہ اس میں ابن عباس ؓ سے لکھا ہے۔ مُتَوَفِّیکَ مُمِیْتُکَ (ترجمہ :مُتَوَفِّیکَ کا معانی ہے تجھے موت دینے والا ہوں۔ناقل) اور پھر تظاہر آیات کے لیے فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کا اس جگہ ذکرکیا ہے اور نیز آنحضرت ﷺکا قول بھی ذکر کیاہے کہ میں قیامت کے دن یہی عرض کروں گا کہ یہ لوگ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں۔ جیساکہ لکھا ہے کَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ۔(الخ)
(2) دوسری دلیل توفی کے ان معنوں پر جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں، لغت عرب کی کتابیں ہیں۔میں نے جہانتک ممکن تھا قریباً تمام شائع شدہ کتابیں لغت کی دیکھی ہیں۔جیسے قاموس، تاج العروس، صراح، صحاح جوہری، لسان العرب اور وہ کتابیں جو حال میں بیروت میں تالیف کر کے عیسائیوں نے شائع کی ہیں’ان تمام کتابوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ محاورہ عرب اسی طرح پر ہے کہ جب کسی جملہ میں خدا تعالیٰ فاعل ہو اور کوئی عَلم انسان مفعول بہٖ ہو جیسا کہ تَوَفَّی اللّٰہُ زَیْدًا (ترجمہ :اللہ نے زید کووفات دی۔ناقل)۔ تو ایسی صورت میں بجز اماتت اور قبض روح اور کوئی معنے نہیں ہوتے۔اور جو شخص اس سے انکار کرے اس پر لازم ہے کہ اس کے برخلاف لغت کی کتابوں سے کوئی نظیر مخالف پیش کرے۔
(3) میں نے بہت محنت اور کوشش سے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا۔صحاحِ ستہ وغیرہ حدیث کی کتابیں غور سے دیکھی ہیں اور میں نے کسی ایک جگہ پر توفی کے معنے بجز وفات دینے کے حدیث میں نہیں پائے بلکہ تین سو کے قریب ایسی جگہ پائی ہیں جہاں ہر جگہ موت دینے کے ہی معنے ہیں۔
(4) میں نے جہاں تک میرے لیے ممکن تھا، عرب کے مختلف دیوان بھی دیکھے ہیں۔ مگر نہ میں نے جاہلیت کے زمانہ کے شعراء اور نا اسلام کے زمانہ کے مستند شعراء کے کلام میں کوئی ایسا فقرہ پایا ہے کہ ایسی صورت میں جو اوپر بیان کی گئی ہے بجز وفات دینے کے کوئی اور معنے ہوں۔
(5) شاہ ولی اﷲ صاحب کی الفوز الکبیر میں بھی یہی لکھا ہے کہ مُتَوَفِّیکَ مُمِیْتُکَ اور میں جانتا ہوں کہ شاہ ولی اﷲ صاحب بڑے پایہ کے محدث اور فقیہ اور عالم فاضل تھے۔
(6) حدیثِ معراج جو بخاری میں موجود ہے اس سے پایا جاتاہے کہ آنحضرت ؐ نے معراج کی رات میں حضرت عیسیٰ ؑ کو فوت شدہ انبیاء میں دیکھا تھا۔ پس اس جگہ دو شہادتیں ہیں۔ایک خدا تعالیٰ کی شہادت قرآن شریف میں، دوسری آنحضرت ؐ کی شہادت لیلۃالمعراج میں۔
(7) آنحضرت ؐ نے جیساکہ کنزالعمال وطبرانی اور کتاب ماثبت بالسنۃ میں شیخ عبد الحق وغیرہ نے لکھاہےکہ حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو پچیس (125) برس کی تھی اور ایک روایت میں ایک سو بیس برس بھی ہے اور ہزاروں برس کی عمر کسی جگہ نہیں لکھی۔
(8) جو صحابہؓ کا اجماع آنحضرت ؐ کی وفات کے بعد ہوا وہ بھی حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات پر دلیل قاطع ہے جو ا س آیت کی رو سے اجماع تھا۔ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران : 145)
(ترجمہ:اور محمد ؐنہیں ہے مگر ایک رسول۔یقیناً اس سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ناقل)
(9) ماسوائے اس کے خد اتعالیٰ نے اپنی وحی قطعی صحیح سے بار بار میرے پر ظاہر کر دیا ہے کہ حضرت عیسیٰ وفات پا گئے اور اپنے کھلے کھلے نشانوں سے میری سچائی ظاہر فرمائی ہے۔ اسی طرح اور بہت سےدلائل ہیں مگر اسی قدر کافی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑکی موت قرآن شریف اور حدیث اور اجماع صحابہؓ سے ثابت ہے۔ اور سورہ نور سے ثابت ہے کہ اس امت کے کل خلفاء اسی امّت میں سے آئیں گے اور صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آنیوالا عیسیٰ اسی اُمت میں سے ہوگا۔ جیساکہ لکھاہے کہ اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (ترجمہ :تمہارا امام تمہی میں سے ہو گا۔ ناقل) بلکہ صحیح بخاری میں پہلے مسیح کا اور حلیہ لکھاہے اور آنے والے مسیح کا اور حلیہ لکھا ہے۔ماسوائے اس کے میرا آنا بے وقت نہیں۔ صدی جس کے سر پر آنا تھا،تئیس برس اس میں سے گذر گئے۔ کسوف خسوف بھی رمضان میں ہوگیا، طاعون بھی پید اہو گئی۔ ایک نئی سواری یعنی ریل بھی پید اہو گئی اور خد اتعالیٰ نے دس ہزار سے زیادہ نشان میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے ہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسلام کی زندگی حضرت عیسیٰ ؑ کی موت میں ہے۔ اگر آج یہ امر عیسائیوں پر ثابت ہو کہ حضرت عیسیٰ ؑ فوت ہو گئے تو وہ سب کے سب عیسائی مذہب کو ترک کر دیں۔ والسّلام علی من اتبع الھدی۔
مرزا غلام احمد عفی اﷲ عنہ
29/اکتوبر 1905ء‘‘
(ملفوظات۔ جلد 4صفحہ526تا528)
یہود، نصاریٰ اور مسلمانوں کا نظریہ بابت وفات مسیح
یہود کا نظریہ یہود کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اس لیے انہوں نے اسے صلیب …