ذات باری تعالیٰ کا عرفان از افادات حضرت بانی سلسلہ احمدیہ
حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ اپنی کتاب ’’سُرمہ چشم آریہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’کئی مقام پر قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم ّ الوہیت ہیں ان کا کلام خدا کاکلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے‘‘۔
”پس چونکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا پیدا ہوئی ہے خدا کا شناخت کرنا نبی کے شناخت کرنے سے وابستہ ہے اِس لئے یہ خود غیر ممکن اور محال ہے کہ بجز ذریعہ نبی کے توحید مل سکے۔ نبی خدا کی صورت دیکھنے کا آئینہ ہوتا ہے اسی آئینہ کے ذریعہ سے خدا کا چہرہ نظر آتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ اپنے تئیں دنیا پر ظاہر کرنا چاہتا ہے تو نبی کو جو اس کی قدرتوں کا مظہر ہے دنیا میں بھیجتاہے اور اپنی وحی اس پر نازل کرتا ہے اور اپنی ربوبیت کی طاقتیں اس کے ذریعہ سے دکھلاتا ہے۔ تب دنیا کو پتہ لگتا ہے کہ خدا موجود ہے۔ پس جن لوگوں کا وجود ضروری طور پر خدا کے قدیم قانونِ ازلی کے رُو سے خد اشناسی کے لئے ذریعہ مقرر ہو چکا ہے اُن پر ایمان لانا توحید کی ایک جزو ہے اور بجز اس ایمان کے توحید کامل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ بغیر اُن آسمانی نشانوں اور قدرت نما عجائبات کے جو نبی دکھلاتے ہیں اور معرفت تک پہنچاتے ہیں وہ خالص توحید جو چشمہء یقین کامل سے پیدا ہوتی ہے میسر آسکے۔ وہی ایک قوم ہے جو خدا نما ہے جن کے ذریعہ سے وہ خدا جس کا وجود دقیق در دقیق اور مخفی در مخفی اور غیب الغیب ہے ظاہر ہوتا ہے اور ہمیشہ سے وہ کنزِ مخفی جس کا نام خدا ہے نبیوں کے ذریعہ سے ہی شناخت کیا گیا ہے۔ ورنہ وہ توحید جو خدا کے نزدیک توحید کہلاتی ہے جس پر عملی رنگ کامل طور پر چڑھا ہوا ہوتا ہے اُس کا حاصل ہونا بغیر ذریعہ نبی کے جیسا کہ خلاف عقل ہے ویسا ہی خلاف تجارب سالکین ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ 115،116)
”حضرات عیسائی خوب یاد رکھیں کہ مسیح علیہ السلام کا نمونہ قیامت ہونا سرمو ثابت نہیں اور نہ عیسائی جی اٹھے بلکہ ُمردہ اور سب ُمردوں سے اوّل درجہ پر اورتنگ و تاریک قبروں میں پڑے ہوئے اور شرک کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں نہ ایمانی روح ان میں ہے نہ ایمانی روح کی برکت بلکہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ توحید کا جو مخلوق پرستی سے پرہیز کرنا ہے وہ بھی ان کو نصیب نہیں ہوا اور ایک اپنے جیسے عاجز اور ناتوان کو خالق سمجھ کر اس کی پرستش کررہے ہیں۔ یاد رہے کہ توحید کے تین درجے ہیں سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنے جیسی مخلوق کی پرستش نہ کریں نہ پتھر کی نہ آگ کی نہ آدمی کی نہ کسی ستارہ کی۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسباب پر بھی ایسے نہ گریں کہ گویا ایک قسم کا ان کو ربوبیت کے کارؔخانہ میں مستقل دخیل قرار دیں بلکہ ہمیشہ مسبب پرنظر رہے نہ اسباب پر۔ تیسرا درجہ توحید کا یہ ہے کہ تجلّیات الہٰیہ کا کامل مشاہدہ کر کے ہریک غیر کے وجود کو کالعدم قرار دیں اور ایسا ہی اپنے وجود کو بھی غرض ہریک چیز نظر میں فانی دکھائی دے بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کامل الصفات کے۔ یہی روحانی زندگی ہے کہ یہ مراتب ثلاثہ توحید کے حاصل ہوجائیں۔ اب غور کر کے دیکھ لو کہ روحانی زندگی کے تمام جاودانی چشمے محض حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طفیل دنیا میں آئے ہیں ‘‘۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 223، 224)
”رُوحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حُسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے۔ لیکن یہ حُسن جو روحانی حُسن ہے جس کو حُسنِ معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حُسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیونکہ حُسنِ بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی۔ لیکن وہ روحانی حُسن جس کو حُسنِ معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دُعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا رُوحانی حُسن والا انسان جس میں محبتِ الٰہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حُسنِ رُوحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں۔ تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرّہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرّات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علمِ طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرّے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرّہ رُوحانی حُسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید رُوح بھی۔ کیونکہ وہ حُسن تجلّی گاہِ حق ہے۔ وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْااِلَّااِبْلِیْسَ اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اِس حُسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسن بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے۔
نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جلّ شانہ، کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حُسن رُوحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سیّد الانبیاء وخیرالوریٰ مولانا و سیّد نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے۔ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی یعنی وہ نبی جنابِ الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا۔ اور پھر مخلوق کی طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حُسن رُوحانی ظاہر کیا‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 219تا 221)
”اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدائے تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔ قدیم سے اہلِ حق حضرات واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوبِ ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناعِ ذاتی اور امکان بالواجب عزّاِسمہ، کا عقیدہ ہے یعنی یہ عقیدہ کہ خدائے تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کے ہویت حقّہ کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات جو ہالکۃ الذّات اور باطلۃ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفت میں شراکت بحضرت باری عزّاسمہ، جائز نہیں اور جیسا ذات کی رُو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رُو سے بھی ممتنع ہے۔ پس ممکنات کے لئے نظراً علیٰ ذاتہم عالم الغیب ہونا ممتنعات میں سے ہے۔ خواہ نبی ہوں یا محدّث ہوں یا ولی ہوں۔ ہاں الہامِ الٰہی سے اسرارِ غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصّہ ملتا رہا ہے اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تابعین آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم میں پاتے ہیں‘‘۔ (تصدیق النبی ) ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات۔ روحانی خزائن جلد4 صفحہ 453،454)
” اُس کی قدرتیں غیر محدود ہیں اور اس کے عجائب کام ناپیدا کنار ہیں اور وہ اپنے خاص بندوں کے لئے اپنا قانون بھی بدل لیتا ہے مگر وہ بدلنا بھی اُس کے قانون میں ہی داخل ہے جب ایک شخص اُس کے آستانہ پر ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضامندی کے لئے پیدا کرتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بندے پر جو خدا ظاہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے۔ نہ وہ خدا جس کو عام لوگ جانتے ہیں۔ وہ ایسے آدمی کے مقابل پر جس کا ایمان کمزور ہے کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جنا ب میں ایک نہایت قوی ایمان کے ساتھ آتا ہے وہ اُس کو دکھلا دیتا ہے کہ تیری مدد کے لئے میں بھی قوی ہوں۔ اس طرح انسانی تبدیلیوں کے مقابل پر اس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں جو شخص ایمانی حالت میں ایسا مفقود الطاقت ہے کہ گویا میّت ہے خدا بھی اس کی تائید اور نصرت سے دستکش ہوکر ایسا خاموش ہو جاتا ہے کہ گویا نعوذ باللہ وہ مرگیا ہے۔ مگر یہ تمام تبدیلیاں وہ اپنے قانون کے اندر اپنے تقدس کے موافق کرتا ہے اور چونکہ کوئی شخص اُس کے قانون کی حد بست نہیں کرسکتا اس لئے جلدی سے بغیر کسی قطعی دلیل کے جو روشن اور بدیہی ہو یہ اعتراض کرنا کہ فلاں امر قانون قدرت کے مخالف ہے محض حماقت ہے کیونکہ جس چیز کی ابھی حدبست نہیں ہوئی اور نہ اس پر کوئی قطعی دلیل قائم ہے اس کی نسبت کون رائے زنی کرسکتا ہے؟‘‘ (چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ 104،105)
”اے سننے والو سنو!! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں۔ ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا۔ یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں۔ بلکہ وہ سنتا ہے اور بولتا بھی ہے، اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔ وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں۔ وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔ اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔ وہ تمثّل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے مگر اُس کے لئے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔ اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا۔ اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔ اور مبدء ہے تمام فیضوں کا۔ اور مرجع ہے ہر ایک شَے کا۔ اور مالک ہے ہر ایک ملک کا۔ اورمتصف ہے ہر ایک کمال سے۔ اور منزّہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔ اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اُسی کی عبادت کریں اور اُس کے آگے کوئی بات بھی اَنْ ہونی نہیں اور تمام روح اور اُن کی طاقتیں اور تمام ذرّات اور اُن کی طاقتیں اُسی کی پیدائش ہیں۔ اُس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی۔ وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اُس کو اسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتاہے اور اپنی قدرتیں اُن کو دکھلاتا ہے اِسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اِسی سے اُس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے۔
وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے۔ اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے۔ اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے۔ اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا اُس کا کام ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں۔ نادان ہے وہ جو اُس کی قدرتوں سے انکار کرے۔ اندھا ہے وہ جو اُس کی عمیق طاقتوں سے بے خبر ہے۔ وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر اُن امور کے جو اُس کی شان کے مخالف ہیں یا اُس کے مواعید کے برخلاف ہیں۔اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں۔ اور اُس تک پہنچنے کے لئے تمام دروازے بند ہیں مگر ایک دروازہ جو فرقان مجید نے کھولا ہے‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ309تا 311)
”قرآن شریف میں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جو خدا کو پیارا بنانے کے لئے کوشش کررہی ہیں۔ کہیں اس کے حسن و جمال کو دکھاتی ہے اور کہیں اُس کے احسانوں کو یاد دلاتی ہیں۔ کیونکہ کسی کی محبت یا تو حُسن کے ذریعہ سے دل میں بیٹھتی ہے اور یا احسان کے ذریعہ سے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ خدا اپنی تمام خوبیوں کے لحاظ سے واحد لاشریک ہے کوئی بھی اس میں نقص نہیں۔ وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام پاک قدرتوں کا اور مبدأ ہے تمام مخلوق کا۔ اور سرچشمہ ہے تمام فیضوں کا۔ اور مالک ہے تمام جزا سزا کا۔ اور مرجع ہے تمام امور کا۔ اور نزدیک ہے باوجود دُوری کے اور دُور ہے باوجود نزدیکی کے۔ وہ سب سے اُوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اَور بھی ہے۔ اور وہ سب چیزوں سے زیادہ پوشیدہ ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس سے کوئی زیادہ ظاہر ہے۔ وہ زندہ ہے اپنی ذات سے اور ہرایک چیز اس کے ساتھ زندہ ہے۔ وہ قائم ہے اپنی ذات سے اور ہر ایک چیز اس کے ساتھ قائم ہے۔ اُس نے ہرایک چیز کو اُٹھا رکھا ہے اور کوئی چیز نہیں جس نے اُس کو اُٹھا رکھا ہو۔ کوئی چیز نہیں جو اس کے بغیر خود بخود پیداہوئی ہے یا اس کے بغیر خود بخود جی سکتی ہے۔ وہ ہریک چیز پر محیط ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ کیسا احاطہ ہے۔ وہ آسمان اور زمین کی ہریک چیز کا نور ہے اور ہریک نُور اسی کے ہاتھ سے چمکا۔ اور اُسی کی ذات کا پَرتَوہ ہے۔ وہ تمام عالموں کا پروردگار ہے۔ کوئی روح نہیں جو اس سے پرورش نہ پاتی ہو اور خود بخود ہو۔ کسی رُوح کی کوئی قوت نہیں جو اس سے نہ ملی ہو اور خود بخود ہو۔ اور اُس کی رحمتیں دو٢ قسم کی ہیں (1)ایک وہ جو بغیر سبقت عمل کسی عامل کے قدیم سے ظہور پذیر ہیں جیسا کہ زمین اور آسمان اور سورج اور چاند اور ستارے اور پانی اور آگ اور ہوا اور تمام ذرّات اس عالم کے جو ہمارے آرام کے لئے بنائے گئے۔ ایسا ہی جن جن چیزوں کی ہمیں ضرورت تھی وہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے پہلے ہی ہمارے لئے مہیّا کی گئیں اور یہ سب اُس وقت کیا گیا جبکہ ہم خود موجود نہ تھے۔ نہ ہمارا کوئی عمل تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سورج میرے عمل کی وجہ سے پیدا کیا گیا یا زمین میرے کسی شدھ کرم کے سبب سے بنائی گئی۔ غرض یہ وہ رحمت ہے جو انسان اور اس کے عملوں سے پہلے ظاہر ہو چکی ہے جو کسی کے عمل کا نتیجہ نہیں (٢)دوسری رحمت وہ ہے جو اعمال پر مترتّب ہوتی ہے اور اس کی تصریح کی کچھ ضرورت نہیں۔ ایسا ہی قرآن شریف میں وارد ہے کہ خدا کی ذات ہریک عیب سے پاک ہے اور ہر ایک نقصان سے مبرّا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ انسان بھی اس کی تعلیم کی پیروی کر کے عیبوں سے پاک ہو۔ اور وہ فرماتا ہے مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہِ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہے گا اور اُس ذات بے چوں کا اس کو دیدار نہیں ہوگا وہ مرنے کے بعد بھی اندھا ہی ہوگا اور تاریکی اس سے جُدا نہیں ہوگی کیونکہ خدا کے دیکھنے کے لئے اِسی دنیا میں حواس ملتے ہیں اور جو شخص ان حواس کو دنیا سے ساتھ نہیں لے جائے گا وہ آخرت میں بھی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے صاف سمجھا دیا ہے کہ وہ انسان سے کس ترقی کا طالب ہے اور انسان اس کی تعلیم کی پیروی سے کہا ں تک پہنچ سکتا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ قرآن شریف میں اس تعلیم کو پیش کرتا ہے جس کے ذریعہ سے اور جس پر عمل کرنے سے اِسی دنیا میں دیدارِ الٰہی میسر آسکتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا یعنی جو شخص چاہتا ہے کہ اِسی دنیا میں اس خدا کا دیدار نصیب ہو جائے جو حقیقی خدا اور پیدا کنندہ ہے پس چاہئے کہ وہ ایسے نیک عمل کرے جن میں کسی قسم کا فساد نہ ہو یعنی عمل اس کے نہ لوگوں کے دکھلانے کے لئے ہوں نہ اُن کی وجہ سے دل میں تکبّر پیدا ہو کہ مَیں ایسا ہوں اور ایسا ہوں اور نہ وہ عمل ناقص اور ناتمام ہوں اور نہ اُن میں کوئی ایسی بدبو ہو جو محبت ذاتی کے برخلاف ہو بلکہ چاہئے کہ صدق اور وفاداری سے بھرے ہوئے ہوں اور ساتھ اس کے یہ بھی چاہئے کہ ہر ایک قسم کے شرک سے پرہیز ہو۔ نہ سورج نہ چاند نہ آسمان کے ستارے نہ ہوا نہ آگ نہ پانی نہ کوئی اور زمین کی چیز معبود ٹھہرائی جائے اور نہ دنیا کے اسباب کو ایسی عزت دی جائے اور ایسا اُن پر بھروسہ کیا جائے کہ گویا وہ خدا کے شریک ہیں اور نہ اپنی ہمت اور کوشش کو کچھ چیز سمجھا جائے کہ یہ بھی شرک کے قسموں میں سے ایک قسم ہے بلکہ سب کچھ کر کے یہ سمجھا جائے کہ ہم نے کچھ نہیں کیا۔ اور نہ اپنے علم پرکوئی غرور کیا جائے اور نہ اپنے عمل پر کوئی ناز۔ بلکہ اپنے تئیں فی الحقیقت جاہل سمجھیں اور کاہل سمجھیں اور خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ہر ایک وقت رُوح گری رہے اور دُعاؤں کے ساتھ اس کے فیض کواپنی طرف کھینچا جائے اور اس شخص کی طرح ہو جائیں کہ جو سخت پیاسا اور بے دست و پا بھی ہے اور اُس کے سامنے ایک چشمہ نمودار ہوا ہے نہایت صافی اور شیریں۔ پس اُس نے افتاں و خیزاں بہرحال اپنے تئیں اس چشمہ تک پہنچا دیا اور اپنی لبوں کو اس چشمہ پر رکھ دیا اور علیحدہ نہ ہوا جب تک سیراب نہ ہوا اور پھر قرآن میں ہمارا خدا اپنی خوبیوں کے بارے میں فرماتا ہے۔ قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۔لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ۔ وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَدٌ۔ یعنی تمہارا خدا وہ خدا ہے جو اپنی ذات اور صفات میں واحد ہے نہ کوئی ذات اُس کی ذات جیسی ازلی اور ابدی یعنی انادی اور اکال ہے نہ کسی چیز کے صفات اُس کی صفات کے مانند ہیں۔ انسان کا علم کسی معلّم کا محتاج ہے اورپھر محدود ہے مگر اُس کا علم کسی معلم کا محتاج نہیں اور باایں ہمہ غیر محدود ہے۔ انسان کی شنوائی ہوا کی محتاج ہے اور محدود ہے مگر خدا کی شنوائی ذاتی طاقت سے ہے اور محدود نہیں۔ اور انسان کی بینائی سورج یا کسی دوسری روشنی کی محتاج ہے اور پھر محدود ہے مگر خدا کی بینائی ذاتی روشنی سے ہے اور غیر محدود ہے۔ ایسا ہی انسان کی پیدا کرنے کی قدرت کسی مادہ کی محتاج ہے اور نیز وقت کی محتاج اور پھر محدود ہے۔ لیکن خدا کی پیدا کرنے کی قدرت نہ کسی مادہ کی محتاج ہے نہ کسی وقت کی محتاج اور غیرمحدود ہے کیونکہ اس کی تمام صفات بے مثل و مانند ہیں اور جیسےکہ اس کی کوئی مثل نہیں اس کی صفات کی بھی کوئی مثل نہیں اگر ایک صفت میں وہ ناقص ہو تو پھر تمام صفات میں ناقص ہوگا۔ اس لئے اس کی توحید قائم نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنی ذات کی طرح اپنے تمام صفات میں بے مثل و مانند نہ ہو۔ پھر اس سے آگے آیت ممدوحہ بالا کے یہ معنے ہیں کہ خدا نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہے۔ کیونکہ وہ غنی بالذات ہے۔ اس کو نہ باپ کی حاجت ہے اور نہ بیٹے کی۔ یہ توحید ہے جو قرآن شریف نے سکھلائی ہے جو مدار ایمان ہے‘‘۔ (لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 152 تا 155)
”اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا ۔اور بے شمار احسان والا اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘۔ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19صفحہ 363)
” جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور ان کی عظمت اورعجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادۂ الٰہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہوگیا تو میری رُوح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں۔ نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کس مادّہ سے بنایا؟‘‘ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ425 حاشیہ)
”جاننا چاہئے کہ جس خداکی طرف ہمیں قرآن شریف نے بلایا ہے اسکی اس نے یہ صفات لکھی ہیں:
یعنی وہ خدا جو واحد لاشریک ہے جس کے سوا کوئی بھی پرستش اور فرمانبرداری کے لائق نہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ اگر وہ لاشریک نہ ہو تو شاید اس کی طاقت پر دشمن کی طاقت غالب آجائے۔ اس صورت میں خدائی معرض خطرہ میں رہے گی۔ اور یہ جو فرمایا کہ اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں اس سے یہ مطلب ہے کہ وہ ایسا کامل خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں اور کمالات ایسے اعلیٰ اور بلند ہیں کہ اگر موجودات میں سے بوجہ صفات کاملہ کے ایک خدا انتخاب کرنا چاہیں یا دل میں عمدہ سے عمدہ اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا کی صفات فرض کریں تو سب سے اعلیٰ جس سے بڑھ کر کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا۔ وہی خدا ہے جس کی پرستش میں ادنیٰ کو شریک کرنا ظلم ہے۔ پھر فرمایا کہ عالم الغیب ہے یعنی اپنی ذات کو آپ ہی جانتا ہے اس کی ذات پر کوئی احاطہ نہیں کر سکتا۔ ہم آفتاب اور ماہتاب اور ہر ایک مخلوق کا سراپا دیکھ سکتے ہیں مگر خدا کا سراپا دیکھنے سے قاصر ہیں۔ پھر فرمایا کہ وہ عالم الشہادۃ ہے یعنی کوئی چیز اس کی نظر سے پردہ میں نہیں ہے۔ یہ جائز نہیں کہ وہ خدا کہلا کر پھر علم اشیاء سے غافل ہو۔ وہ اس عالم کے ذرہ ذرہ پر اپنی نظر رکھتا ہے لیکن انسان نہیں رکھ سکتا۔ وہ جانتا ہے کہ کب اس نظام کو توڑ دے گا اور قیامت برپا کر دے گا۔ اور اس کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کب ہوگا؟ سو وہی خدا ہے جو ان تمام وقتوں کو جانتا ہے۔ پھر فرمایا ھُوَ الرَّحْمٰن یعنی وہ جانداروں کی ہستی اور ان کے اعمال سے پہلے محض اپنے لطف سے نہ کسی غرض سے اور نہ کسی عمل کی پاداش میں ان کے لئے سامان راحت میسر کرتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اور زمین اور دوسری تمام چیزوں کو ہمارے وجود اور ہمارے اعمال کے وجود سے پہلے ہمارے لئے بنا دیا۔ اس عطیہ کا نام خدا کی کتاب میں رحمانیت ہے۔ اور اس کام کے لحاظ سے خدائے تعالیٰ رحمن کہلاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ اَلرَّحِیْم یعنی وہ خدا نیک عملوں کی نیک تر جزا دیتا ہے اور کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کام کے لحاظ سے رحیم کہلاتا ہے۔ اور یہ صفت رحیمیت کے نام سے موسوم ہے۔ اور پھر فرمایا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن یعنی وہ خدا ہر ایک کی جزا اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اس کا کوئی ایسا کارپرداز نہیں جس کو اس نے زمین و آسمان کی حکومت سونپ دی ہو اور آپ الگ ہو بیٹھا ہو اور آپ کچھ نہ کرتا ہو۔ وہی کارپرداز سب کچھ جزا سزا دیتا ہو یا آئندہ دینے والا ہو۔ اور پھر فرمایا اَلْمَلِکُ القُدُّوْسُ یعنی وہ خدا بادشاہ ہے جس پر کوئی داغ عیب نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ انسانی بادشاہت عیب سے خالی نہیں۔ اگر مثلاً تمام رعیت جلا وطن ہو کر دوسرے ملک کی طرف بھاگ جاوے تو پھر بادشاہی قائم نہیں رہ سکتی یا اگر مثلاً تمام رعیت قحط زدہ ہو جائے تو پھر خراج شاہی کہاں سے آئے اور اگر رعیت کے لوگ اس سے بحث شروع کر دیں کہ تجھ میں ہم سے زیادہ کیا ہے تو وہ کونسی لیاقت اپنی ثابت کرے۔ پس خدا تعالیٰ کی بادشاہی ایسی نہیں ہے۔ وہ ایک دم میں تمام ملک کو فنا کرکے اور مخلوقات پیدا کر سکتا ہے۔ اگر وہ ایسا خالق اور قادر نہ ہوتا تو پھر بجز ظلم کے اس کی بادشاہت چل نہ سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کو ایک مرتبہ معافی اور نجات دے کر پھر دوسری دنیا کہاں سے لاتا۔ کیا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجنے کے لئے پھر پکڑتا اور ظلم کی راہ سے اپنی معافی اور نجات دہی کو واپس لیتا؟ تو اس صورت میں اس کی خدائی میں فرق آتا اور دنیا کے بادشاہوں کی طرح داغدار بادشاہ ہوتا جو دنیا کے لئے قانون بناتے ہیں۔ بات بات میں بگڑتے ہیں اور اپنی خودغرضی کے وقتوں پر جب دیکھتے ہیں کہ ظلم کے بغیر چارہ نہیں تو ظلم کو شیر مادر سمجھ لیتے ہیں۔ مثلاً قانون شاہی جائز رکھتا ہے کہ ایک جہاز کو بچانے کے لئے ایک کشتی کے سواروں کو تباہی میں ڈال دیا جائے اور ہلاک کیا جائے مگر خدا کو تو یہ اضطرار پیش نہیں آنا چاہئے۔ پس اگر خدا پورا قادر اور عدم سے پیدا کرنے والا نہ ہوتا تو یا تووہ کمزور راجوں کی طرح قدرت کی جگہ ظلم سے کام لیتا اور یا عادل بن کر خدائی کو ہی الوداع کہتا۔ بلکہ خدا کا جہاز تمام قدرتوں کے ساتھ سچے انصاف پر چل رہا ہے۔ پھر فرمایا السَّلام یعنی وہ خدا جو تمام عیبوں اور مصائب اور سختیوں سے محفوظ ہے بلکہ سلامتی دینے والا ہے۔ اس کے معنے بھی ظاہر ہیں کیونکہ اگر وہ آپ ہی مصیبتوں میں پڑتا لوگوں کے ہاتھ سے مارا جاتا اور اپنے ارادوں میں ناکام رہتا تو پھراس بد نمونہ کو دیکھ کر کس طرح دل تسلی پکڑتے کہ ایسا خدا ہمیں ضرور مصیبتوں سے چھڑا دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے بارے میں فرماتا ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْالَہُ ط وَ اِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُواللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ جن لوگوں کو تم خدا بنائے بیٹھے ہو وہ تو ایسے ہیں کہ اگر سب مل کر ایک مکھی پیدا کرنا چاہیں تو کبھی پیدا نہ کر سکیں اگرچہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔ بلکہ اگر مکھی ان کی چیز چھین کر لے جائے تو انہیں طاقت نہیں ہوگی کہ وہ مکھی سے چیز واپس لے سکیں۔ ان کے پرستار عقل کے کمزور اور وہ طاقت کے کمزور ہیں۔ کیا خدا ایسے ہوا کرتے ہیں؟ خدا تو وہ ہے کہ سب قوتوں والوں سے زیادہ قوت والا اور سب پر غالب آنے والا ہے۔ نہ اُس کو کوئی پکڑ سکے اور نہ مار سکے۔ ایسی غلطیوں میں جو لوگ پڑتے ہیں وہ خدا کی قدر نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے خدا کیسا ہونا چاہئے اور پھر فرمایا کہ خدا امن کا بخشنے والا اور اپنے کمالات اور توحید پر دلائل قائم کرنے والا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سچے خدا کا ماننے والا کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہو سکتا اور نہ خدا کے سامنے شرمندہ ہوگا کیونکہ اس کے پاس زبردست دلائل ہوتے ہیں۔ لیکن بناوٹی خدا کا ماننے والا بڑی مصیبت میں ہوتا ہے۔ وہ بجائے دلائل بیان کرنے کے ہر ایک بیہودہ بات کو راز میں داخل کرتا ہے تا ہنسی نہ ہو اور ثابت شدہ غلطیوں کو چھپانا چاہتا ہے۔
اور پھر فرمایا کہ الْمُھَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ۔ یعنی وہ سب کا محافظ ہے اور سب پر غالب اور بگڑے ہوئے کاموں کا بنانے والا ہے اور اس کی ذات نہایت ہی مستغنی ہے۔ اور فرمایا۔ ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی۔ یعنی وہ ایسا خدا ہے کہ جسموں کا بھی پید اکرنے والا اور روحوں کا بھی پیدا کرنے والا۔ رِحم میں تصویر کھینچنے والا ہے۔ تمام نیک نام جہاں تک خیال میں آ سکیں سب اُسی کے نام ہیں۔ اور پھر فرمایا یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ یعنی آسمان کے لوگ بھی اس کے نام کو پاکی سے یاد کرتے ہیں اور زمین کے لوگ بھی۔ اس آیت میں اشارہ فرمایا کہ آسمانی اجرام میں آبادی ہے اور وہ لوگ بھی پابند خدا کی ہدایتوں کے ہیں اور پھر فرمایا عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ یعنی خدا بڑا قادر ہے۔ یہ پرستاروں کے لئے تسلی ہے۔ کیونکہ اگر خدا عاجز ہو اور قادر نہ ہو تو ایسے خدا سے کیا امید رکھیں اور پھر فرمایا رَبُّ الْعَالَمِیْنَ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم۔ مٰلِک یَوْمِ الدِّیْنِ ۔اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ یعنی وہی خدا ہے جو تمام عالموں کا پرورش کرنے والا۔ رحمن رحیم اور جزا کے دن کا آپ مالک ہے۔ اس اختیار کو کسی کے ہاتھ میں نہیں دیا۔ ہر ایک پکارنے والے کی پکار کو سننے والا اور جواب دینے والا یعنی دعاؤں کا قبول کرنے والا۔ اور پھر فرمایا۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ یعنی ہمیشہ رہنے والا اور تمام جانوں کی جان اور سب کے وجود کا سہارا۔ یہ اس لئے کہا کہ وہ ازلی ابدی نہ ہو تو اس کی زندگی کے بارے میں بھی دھڑکا رہے گا کہ شاید ہم سے پہلے فوت نہ ہو جائے۔ اور پھر فرمایا کہ وہ خدا اکیلا خدا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا اور نہ کوئی اس کا بیٹا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر اور نہ کوئی اس کا ہم جنس۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 372 تا 376)
حمدِ ربّ العالمین
کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالَم آئینہ اَبْصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کَل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اُس میں جمالِ یار کا
اُس بہارِ حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے تُرک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا
چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا
تو نے خود رُوحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اُس سے ہے شورِ محبت عاشقانِ زار کا
کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا
تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اِس عُقدۂ دشوار کا
خُو برُویوں میں ملاحت ہے ترے اُس حسن کی
ہر گل و گلشن میں ہے رنگ اس ترے گلزار کا
چشمِ مستِ ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سَو سَو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغِ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اَغیار کا
تیرے ملنے کے لئے ہم مل گئے ہیں خاک میں
تا مگر دَرماں ہو کچھ اس ہجر کے آزار کا
ایک دم بھی کَل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
جاں گَھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا
شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا
(سرمہ چشم آریہ صفحہ ۴ ۔مطبوعہ ۱۸۸۶ء)